مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان اخبار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ چین نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلمان اکثریتی خطے سنکیانگ سے 2014 سے اب تک 13ہزار دہشت گرد قرار دیے گئے افراد کو گرفتار کر کے سیکڑوں دہشت گروہوں کو ختم کردیا ہے۔
سنکیانگ کی صورتحال پر حکومتی رپورٹ میں یہ اعدادوشمار پیش کیے گئے جہاں 10لاکھ سے زائد آبادی کے حامل صوبے میں ایغور اور دیگر مسلم برادری کو حراستی مراکز میں رکھے جانے پر بڑھتی ہوئی تنقید کو دیکھتے ہوئے حکومت نے رپورٹ طلب کی تھی۔ چین کی جانب سے کئی ماہ تک حراستی مراکز کی موجودگی کا انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن عالمی دباؤ کے بعد چین نے ان حراستی مراکز کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عارضی ٹریننگ سینٹر قرار دیا تھا۔ ابھی تک چین کی جانب سے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ ان حراستی مراکز میں کتنے لوگ موجود ہیں اور انہیں کب تک وہاں رکھا جائے گا۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ہیں جس میں لوگ رضاکارانہ بنیادوں پر شریک ہوتے ہیں۔
ان حراستی مراکز سے نکلنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہیں انتہائی بری حالت میں رکھا جاتا ہے اور اسلام چھوڑ کر چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ ناقدین بھی یہی الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کیمپوں میں اقلیتی ایغور مسلمانوں کو مذہب ترک کرنے اور چینی معاشرے کو اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چین کے مغربی علاقے میں مقامی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ سنکیانگ میں 2009 میں ہونے والے خونی فسادات کے بعد چین نے وہاں کی مسلم برادری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا اور انہیں حکومت کے حراستی کیمپوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں رکھے گئے ہیں۔
آپ کا تبصرہ